پاکستان کے تعلیمی شعبے کی حالت دگرگوں ہے اور ملک میں بسنے والے ہر بچے کو یکساں معیارِ تعلیم میسر نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی آزادی کے ستر سال گزرنے کے باوجود بھی تیسری دنیا کے ممالک میں شمار کئے جاتے ہیں۔ جہاں تعلیم کا سرکاری ڈھانچہ ناکام ہو چکا وہیں پر پرائیویٹ سکول بھی پیسہ بنانے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ چند ایک بڑے پرائیویٹ سکولوں کو چھوڑ کر کوئی بھی پرائیویٹ سکول معیارِتعلیم کے جدید تقاضوں پر پورا نہیں اترتا اور یہ وہ بڑے پرائیویٹ سکول ہیں جن کی فیس صرف اس ملک کی اشرافیہ ہی ادا کرسکتی ہے۔
میرے شہر حافظ آباد کی تعلیمی صورتحال بھی مختلف نہیں ہے ۔ اکثر سرکاری سکولوں میں بچےداخل ہی نہیں ہوتے کیونکہ ان کے والدین ان نے سے محنت مزدوری کروانے کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر بچے سکولوں میں داخل ہو بھی جائیں تو اساتذہ ان بچوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے بہت سے بچے تعلیم مکمل کئے بغیر ہی سکول چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ضلع کے گاوں دیہاتوں میں اساتذہ اور ہیڈ ٹیچر بچوں سے گھر کے کام کاج کرواتے ہیں جو کہ بچوں کے سکول چھوڑنے کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ایک بڑا مسئلہ انگریزی زبان بھی ہے جو زبردستی بچوں اور اساتذہ پر تھوپ دی گئی ہے۔ بچے تو دور کی بات اساتذہ تک کو انگریزی نہیں آتی جس کی وجہ سے وہ بچوں کو صرف رٹا لگانے کی ترغیب دیتے ہیں جس کی وجہ سے معیارِ تعلیم بہتر ہونے کی بجائے گرتا جارہا ہے۔
ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ اچھی سے اچھی تعلیم حاصل کرے کیونکہ روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے علاوہ تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے اور اچھے بُرے کی تمیز بھی سکھاتی ہے۔آج کل انتخابی مہم عروج پر اور مختلف نمائندوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے مختلف قسم کے نعرے سننے کو مل رہے ہیں لیکن میں صرف یہی کہوں گی کہ ووٹ اس کو ملنا چاہیے جو ملک و ملت کی ترقی کیلئے تعلیم کی اہمیت کو سمجھے اور منتخب ہونے کے بعد تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر جگہ دے۔
Candidates sign charter of education demands
Steps needed on a war-footing to engender change